خالد علیم ۔۔۔ خالد احمد کی یاد میں

میرا احساس، مرا فکر و فن آراستہ تھا
اک سخن وَر تھا کہ جس سے سخن آراستہ تھا

اک جہانِ سمن و نسترن آراستہ تھا
گل نما، نجم ادا، سیم تن آراستہ تھا

نطق و گفتار کا صد رنگ طلسمِ معنی
اِن فضاؤں میں کبھی نغمہ زن آراستہ تھا

طلعتِ غنچۂ فن پر تھی طراوت اس کی
نو بہ نو رنگِ نوا پیرہن آراستہ تھا

ایسا فن کار کہ گل رنگ ہوئی بزمِ فنون
ایسا گل کار کہ سارا چمن آراستہ تھا

دل کے احوال میں بھی، رنگ ِ خد و خال میں بھی
وہ بہر نوع، سرِ جان و تن آراستہ تھا

تا کریں کسبِ ضیا خاک نشیں ہم جیسے
سحر انداز و ستارہ سخن آراستہ تھا

اپنے محشر کدۂ جاں سے نکلنے کے لیے
کتنا تنہا وہ سرِ انجمن آراستہ تھا

محفلِ خوش نفساں میں وہ رہا قہقہہ بار
دل بہ پیرایۂ رنج و محن آراستہ تھا

پہلوے ہست میں رہتا نہ تھا نابود آہنگ
گو کہ نابود سے سارا بدن آراستہ تھا

بیشہ ٔ فکر تہی رم ہے کہ اُس کے دم سے
دمِ رم خوردہ غزالِ ختن آراستہ تھا

’’نم گرفتہ‘‘ وہ گرفتارِ عدم تھا کب سے
ٹوٹنے کو کہیں آئینہ تن آراستہ تھا

پسِ منظر میں نہاں تھا سرِ منظر اس کا
حجلۂ جاں میں وہ انجم فگن آراستہ تھا

نیم وا آنکھ سے دیکھا، اُسے دیکھا تو سہی!
ایک یکتاے سخن تھا، سخن آراستہ تھا

نیم جاں، نیم بیاں، نیم ادا، نیم نگاہ
رُوے کہسار بہ حالِ دمن آراستہ تھا

ضعف میں بھی نہ گیا طنطنۂ فکر ِ سخن
ضعف میں بھی وہ شکستہ بدن آراستہ تھا

شاخ در شاخ یہ کیا ڈھونڈ رہے ہو خالد؟
ایک وہ تھا تو یہ سارا چمن آراستہ تھا

Related posts

Leave a Comment